Sach Kaho'n Mujh Ko Ye Unwan Bura Lagta Hai - Manzar Bhopali



 سچ کہوں مجھ کو یہ عنوان برا لگتا ہے

ظلم سہتے ہوئے انسان برا لگتا ہے


کس قدر ہو گئی مصروف یہ دنیا اپنی

ایک دن ٹھہرے تو مہمان برا لگتا ہے


ان کی خدمت تو بہت دور بہو بیٹیوں کو

بوڑھے ماں باپ کا فرمان برا لگتا ہے


میرے اللہ میری نسلوں کوذلت سےنکال

ہاتھ  پھیلائے  مسلمان  برا   لگتا   ہے


۔


لہو اپنوں کا اپنے ہاتھ پر اچھا نہیں لگتا

ہمیں جھوٹی انا کا یہ سفر اچھا نہیں لگتا


امیرِ شہر نے یوں کی ہمارے سر کی فرمائش

یہ مقتل ہے یہاں شانوں پہ سر اچھا نہیں لگتا


بڑے شہروں کی رونق اس کو اندھا کر گئی منظر

پلٹ کر گاؤں آیا ہے تو گھر اچھا نہیں لگتا


۔


سحر نے اندھی گلی کی طرف نہیں دیکھا

جسے طلب تھی اسی کی طرف نہیں دیکھا


سبھی کو دکھ تھا سمندر کی بے قراری کا

کسی نے مڑ کے ندی کی طرف نہیں دیکھا


کچوکے  دیتی  رہیں غربتیں  مجھے  لیکن

میری انا نے کسی کی طرف  نہیں  دیکھا


جو  آئینے  سے  ملا، آئینے  پہ  جھنجھلایا

کسی نے اپنی کمی کی طرف نہیں دیکھا


تمام عمر گزاری خیال میں جس کے

تمام عمر اسی کی طرف نہیں دیکھا


سفر کے بیچ یہ کیسا بدل گیا موسم

کہ پھر کسی نے کسی کی طرف نہیں دیکھا


یزیدیت کے اندھیرے تھے سارے کوفے میں 

کسی نے سبطِ نبی کی طرف نہیں دیکھا




Post a Comment

1 Comments

Contact

Name

Email *

Message *