سچ کہوں مجھ کو یہ عنوان برا لگتا ہے
ظلم سہتے ہوئے انسان برا لگتا ہے
کس قدر ہو گئی مصروف یہ دنیا اپنی
ایک دن ٹھہرے تو مہمان برا لگتا ہے
ان کی خدمت تو بہت دور بہو بیٹیوں کو
بوڑھے ماں باپ کا فرمان برا لگتا ہے
میرے اللہ میری نسلوں کوذلت سےنکال
ہاتھ پھیلائے مسلمان برا لگتا ہے
۔
لہو اپنوں کا اپنے ہاتھ پر اچھا نہیں لگتا
ہمیں جھوٹی انا کا یہ سفر اچھا نہیں لگتا
امیرِ شہر نے یوں کی ہمارے سر کی فرمائش
یہ مقتل ہے یہاں شانوں پہ سر اچھا نہیں لگتا
بڑے شہروں کی رونق اس کو اندھا کر گئی منظر
پلٹ کر گاؤں آیا ہے تو گھر اچھا نہیں لگتا
۔
سحر نے اندھی گلی کی طرف نہیں دیکھا
جسے طلب تھی اسی کی طرف نہیں دیکھا
سبھی کو دکھ تھا سمندر کی بے قراری کا
کسی نے مڑ کے ندی کی طرف نہیں دیکھا
کچوکے دیتی رہیں غربتیں مجھے لیکن
میری انا نے کسی کی طرف نہیں دیکھا
جو آئینے سے ملا، آئینے پہ جھنجھلایا
کسی نے اپنی کمی کی طرف نہیں دیکھا
تمام عمر گزاری خیال میں جس کے
تمام عمر اسی کی طرف نہیں دیکھا
سفر کے بیچ یہ کیسا بدل گیا موسم
کہ پھر کسی نے کسی کی طرف نہیں دیکھا
یزیدیت کے اندھیرے تھے سارے کوفے میں
کسی نے سبطِ نبی کی طرف نہیں دیکھا


1 Comments
Excellent
ReplyDelete