کتنے
موسم سَرگرداں تھے ، مجھ سے ھاتھ مِلانے میں
میں
نے شاید دیر لگا دی ، خود سے باھر آنے میں
جتنے
دُکھ تھے جتنی اُمیدیں ، سب سے برابر کام لیا
میں
نے اپنے آئندہ کی ،اِک تصویر بنانے میں
ایک
وضاحت کے لمحے میں ، مجھ پر یہ احوال کُھلا
کتنی
مشکل پیش آتی ھے ، اپنا حال بتانے میں
آج
اُس پُھول کی خوشبُو ،مجھ میں پیہم شور مچاتی ھے
جس
نے بے حد عجلت برتی ،کِھلنے اور مُرجھانے میں
ایک
نگاہ کا سناٹا ھے ، ایک آواز کا بنجر پَن
میں
کتنا تنہا بیٹھا ھُوں ، قُربت کے ویرانے میں
پہلے
دل کو آس دِلا کر ،بے پروا ھو جاتا تھا
اب
تو عزمؔ بکھر جاتا ھُوں ، میں خود کو بہلانے میں
"عزم بہزاد"
0 Comments