ہر
چیز میں عکسِ رخّ زیبا نظر آیا
عالم
مجھے سب جلوہ ہی جلوہ نظر آیا
تو
کب کسی طالب کو سراپا نظر آیا
دیکھا
تجھے اتنا جسے جتنا نظر آیا
عاشق
کو تو ہر سُو تیرا جلوہ نظر آیا
مسجد
نظر آئی نہ کلیسا نظر آیا
کیں
بند جو آنکھیں تو مری کھل گئی آنکھیں
کیا
تُم سے کہوں پھر مجھے کیا کیا نظر آیا
جب
مہر نمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے
تو
مجھ کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا
گردوں
کو بھی اب دیکھ کے ہوتی ہے تسلّی
غُربت
میں یہی ایک شناسا نظر آیا
سب
دولتِ کونین جو دی عشق کے بدلے
اِس
بھاؤ یہ سودا مجھے سستا نظر آیا
ناکام
ہی تا عُمر رہا طالبِ دیدار
ہر
جلوہ تِرا بعد کو پردہ نظر آیا
کرتی
ہے چکا چوند نئی روشنی سب کو
اِس
روشنی میں مجھ کو اندھیرا نظر آیا
ڈوبے
تو کُھلی بحرِ محبت کی حقیقت
ہر
قطرہ میں اک آگ کا دریا نظر آیا
حسرت
سے اِدھر دیکھ کے آنسو نکل آئے
دُنیا
میں مُجھے جب کوئی ہنستا نظر آیا
صد
شکر کہ آ پہنچا لبِ گور جنازہ
لو
بحرِ محبّت کا کنارا نظر آیا
سب
تشنہ ہیں معلوم ہوا بحرِ محبّت
صحرا
تھا مگر دور سے دریا نظر آیا
جو
دُور نگاہوں سے سرِ عرش بریں ہے
وہ
نُور ِ گنبدِ حضرا نظر آیا
مجذوب
کبھی سوز کبھی ساز ہے تجھ میں
تو
میر کبھی اور کبھی سودا نظر آیا
مجذوب
کے جذبے کی جو سمجھے نہ حقیقت
ان
عقل کے اندھوں کو یہ سودا نظر آیا
خواجہ عزیز الحسن مجذوب
Read more of Khwaaja Aziz Ul Hassan Majzob's Poetry by clicking here
0 Comments