اوجھل
سہی نگاہ سے ڈوبا نہیں ہوں میں
اے
رات ہوشیار-- کہ ہارا نہیں ہوں میں
درپیش
صبح و شام-- یہی کشمکش ہے اب
اُس
کا بنوں میں کیسے کہ اپنا نہیں ہوں میں
مجھ
کو فرشتہ ہونے کا دعویٰ نہیں مگر
جتنا
برا سمجھتے ہو-- اتنا نہیں ہوں میں
اس
طرح پھیر پھیر----- کے باتیں نہ کیجئے
لہجے
کا رخ سمجھتا ہوں بچہ نہیں ہوں میں
ممکن
نہیں ہے مجھ سے یہ طرزِ منافقت
دنیا
تیرے مزاج کا------بندہ نہیں ہوں میں
امجد
تھی بھیڑ ایسی--- کہ چلتے چلے گئے
گرنے
کا ایسا خوف تھا ٹھہرا نہیں ہوں میں
امجد
اسلام امجد
1 Comments
❤
ReplyDelete