خدا بول رہا ہے
قسط نمبر28
کچھ ہی دیر میں وقار اپنی والدہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔اسریٰ باہر ہی رک گئی تھی۔ وقار کی چھٹی حس بتارہی تھی کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے۔
اس نے آتے ہی پوچھا۔
امی آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ اسریٰ نے بتایاتھاکہ آپ مجھے فوراً بلارہی ہیں۔
ہاں بیٹا۔ اب تو میں زندگی سے زیادہ موت سے قریب ہوں۔ چاہتی ہوں کہ تم سے کچھ باتیں کرلوں۔
امی آپ کیسی باتیں کررہی ہیں۔ اب تو الحمدللہ آپ کی طبیعت بالکل ٹھیک ہوگئی ہے۔
ہاں بیٹا، مگر زندگی میں خوشی تو ابھی بھی نہیں ہے نا۔ جب تک سونیا زندہ تھی، میں پوتا پوتی کی نعمت سے محروم رہی۔ مگر تم سے ایک لفظ نہ کہا کہ جانتی تھی کہ تم اس کے معاملے میں کتنے حساس ہو۔ پھر اس کی موت کے بعدتم نے دنیا چھوڑی۔ میں نے وہ غم بھی سہا۔ تم سے دوسری شادی کا کہا۔ مگر تم نے میری ایک نہیں مانی۔ اب سوچتی ہوں کہ مروں گی تو خدا کے حضور یہی گواہی دوں گی کہ میرے بیٹے نے مجھے زندگی میں کوئی خوشی نہیں دی۔
وقار اپنی والدہ کی اس بات پر سٹپٹاکر رہ گیا۔
مگر امی میں نے آپ کی خدمت میں کوئی کمی نہیں کی۔
بیٹا خدمت تو سب کچھ نہیں ہوتی نا۔ ایسی خدمت تو میری اسریٰ نے بھی کچھ ہی عرصے میں کرلی ہے۔ مگر اس نے ایک بیٹی بن کر جو خوشی مجھے دی ہے وہ تم کبھی نہیں دے سکے، نہ دے سکو گے۔ سوچتی ہوں کہ اسریٰ کی شادی تم سے کردیتی تو مرنے سے پہلے میرے سارے غموں کا ازالہ ہوجاتا۔ مگر میں تمھیں جانتی ہوں۔ایک مری ہوئی عورت کی خاطر اپنی ماں کی بات تم نے نہ پہلے مانی ہے نہ اب مانوگے تو اب خدا کے حضور پیش ہوکر تو میں یہی کہوں گی کہ میرا بیٹا میرا نافرمان تھا۔
اب وقار پوری بات سمجھ گیا۔
تو اسریٰ نے آپ سے بات کی ہے؟
کیا غلط بات کی ہے اس نے؟ یہ میرے دل کی آواز تھی۔ میری برسوں کی دعا تھی۔ خدا نے میری دعا اس طرح سنی کہ آسمان سے ایک نیک پری کو ہمارے گھر میں بھیج دیا۔مگر تم ناشکرے پن سے باز نہیں آتے۔ تم تو عورتوں کو دیکھنے کے لیے بالکل اندھے ہو۔ ورنہ تم دیکھتے کہ اسریٰ کی شکل میں اللہ نے تمھارے صبر کا بدلا تمھارے گھر بھیجا ہے۔
امی ! میں سونیا کو ایک کونے میں رکھ دوں تب بھی یہ جانتاہوں کہ اسریٰ صرف میرے احسانوں کا بدلہ اتارنے کی کوشش کررہی ہے۔
تمھارے احسانوں کا بدلہ وہ اتارچکی ہے۔ بیٹا وقار! ایک بات یاد رکھنا۔ آج کے دور میں بڑے لوگ وہ نہیں ہوتے جو احسان کرتے ہیں۔ بڑے لوگ وہ ہوتے ہیں جو احسان کا بدلہ اتارتے ہیں۔کیونکہ وقت گزرنے کے بعد کسی کو یاد نہیں رہتا کہ اس پر کیا احسان کیا گیا ہے۔ اسریٰ یہ کررہی ہے تو اس کا بڑا پن ہے۔
یہی تو میں کہہ رہا ہوں۔ یہ اگر اس کا بڑا پن ہے توکیا اسے یہ سزا دی جائے کہ اس کی عمر سے پندرہ برس بڑے آدمی کے پلے اسے باندھ دیا جائے۔
بیٹا! اتنی بات ہوتی تو میں خود اسے منع کردیتی ۔ مگر تم نے اسے نظر بھر کر نہیں دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں غور سے نہیں دیکھا۔ اس لیے کہ تم عورتوں کو غور سے دیکھتے ہی نہیں۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا ہے ۔ وہ تمھیں واقعی پسند کرتی ہے۔یہ معاملہ صرف احسان اتارنے کا نہیں ہے۔
پھر وہ اسے مزید سمجھاتے ہوئے بولیں۔
دیکھو!تم نے بہت صبر کرلیا ہے۔ اب شکر کا وقت ہے۔
مگر امی آپ جانتی ہیں کہ میں سونیا کے بعد کسی سے شادی نہیں کرسکتا۔
میرے بیٹے! جاؤ اور باہر جاکر اُس لڑکی کو غور سے دیکھو۔ وہ سونیا ہی کا دوسرا روپ ہے۔ خدا نے تمھاری مری ہوئی بیوی کو دوبارہ زندہ کرکے تمھارے پاس بھیجا ہے۔ اس کا ظاہرسونیا کا ہے ، مگر اس کا باطن سونیا سے کہیں بہتر ہے تاکہ جنت میں بھی وہ تمھارے ساتھ رہ سکے۔ خدانے تمھارے لیے معجزہ کیاہے۔ یہ معجزے وہ ہر کسی کے لیے نہیں کرتا۔
وقارسرجھکائے بیٹھارہا۔ اسے خاموش دیکھ کر بیگم شمیم دوبارہ بولیں۔
جاؤ اور باہر جاکر خدا کے اس احسان کی قدر کرو۔ اسریٰ اللہ کی وہ نعمت ہے جسے تمھارے پاس اللہ نے خود بھیجا ہے۔ اسے ٹھکراؤگے تو کفران نعمت کے مرتکب ہوگے۔ماں کا دل دکھانے کے الگ سے گناہ گار ہوگے۔ مجھے آخری عمر میں اگر یہ سکھ نہیں دے سکتے تو مجھے لاوارثوں کے کسی مرکز میں چھوڑ کر آجاؤ۔ ایسی اولاد کا کیا فائدہ جو ماں کو خوشی نہ دے سکے۔
وقار کے پاس فرار کے سارے راستے بند ہوچکے تھے۔اس نے سر جھکاکر کہا۔
ٹھیک ہے امی۔ جیسے آپ کی مرضی۔
ایسے نہیں۔ وہ باہر بیٹھی ہے۔ اسے جاکر خود بتاؤ کہ تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو۔ یہ میرا حکم ہے۔
امی پلیز۔۔۔۔۔۔یہ میرا مزاج نہیں ہے۔
میں کچھ نہیں سننا چاہتی۔ جاؤ اور جو میں کہہ رہی ہوں وہ کرو۔
وقار بادل نخواستہ اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار ہارے ہوئے جواری کی طرح اپنی والدہ کے کمرے سے نکلا تو باہر اسریٰ بیٹھی ہوئی تھی۔ وقار کو دیکھ کر اس نے سر جھکالیا۔وقار نے اسے پہلی دفعہ غور سے دیکھا اور بس دیکھتا رہ گیا۔وہ ایک لمحے پہلے تک اپنی والدہ کے حکم کی تعمیل کررہا تھا۔ مگر اب اسے محسوس ہوا کہ جو کچھ وہ اسریٰ سے کہنے جارہا ہے وہ اس کے دل کی آواز ہے۔
اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ آہستہ سے اس کے قریب آکر بولا۔
اسریٰ میں تم سے شادی کروں گا۔
اس کی بات پر اسریٰ نے اسے سر اٹھاکر دیکھا اوردبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
میں تھوڑی سی بدتمیز ہوں۔ آپ کو برداشت کرنا ہوگا۔
یہ کون کہتا ہے ؟
سب کہتے ہیں۔
بالکل غلط کہتے ہیں۔
تو سچ کیا ہے میں آپ کے منہ سے سننا چاہتی ہوں۔
اسریٰ خو ش ہوگئی تھی۔وہ سمجھی کہ وقار اب اس کی تعریف کرے گا۔
تم تھوڑی نہیں بلکہ بہت زیادہ بدتمیز ہو۔
یہ کہہ کر وقار ہنستا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔اسریٰ نے وقار کو پہلی دفعہ ہنستے ہوئے دیکھا تھا۔ اسے وہ ہنستا ہوا بہت اچھا لگا۔اس نے ہنستے ہوئے پیچھے سے آوازلگائی۔
جیسی بھی ہوں۔ اب تو آپ کو برداشت کرنا ہی پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار اور اسریٰ کی شادی کوایک سال گزرگیا پتہ ہی نہ چلا۔اس عرصے میں وقار کو ایک بالکل مختلف اسریٰ سے واسطہ پڑا۔ اس کی سخت مزاجی نرمی میں بدل چکی تھی۔وقار کی طرح اسریٰ کی زندگی بھی عبادت،خدمت،انفاق اور اخلاق سے آراستہ ہوچکی تھی۔سونیا کے برعکس وہ وقار اور اس کی والدہ دونوں کی بہت خدمت کرتی تھی۔
اس سب کے ساتھ اس نے وقار کے حالات کو بھی بدل دیا تھا۔اسریٰ پیسے ضائع کرنے کی عادی نہیں تھی۔ برسہا برس میں اس نے اعلیٰ عہدوں پر کام کرتے ہوئے جو کچھ کمایا تھا ،اسے مختلف طریقوں سے انویسٹ کررکھا تھا۔اسی بنا پر اس نے اطمینان سے وقار کی والدہ کا علاج کرالیا تھا۔ پھر بھی اس کے پاس کافی پیسے بچے تھے۔
اس نے وقار کو آمادہ کرلیاکہ دوبارہ بزنس شروع کرے۔پھر اس نے اپنا اور وقار کا سارا سرمایہ اکٹھا کرکے ایک بزنس شروع کردیا تھا۔سرمایہ اس سطح سے بہت کم تھاجہاں وقار نے کام چھوڑا تھا، مگر اول تو یہ دونوں بزنس کی بہت اچھی سمجھ رکھتے تھے، اس سے کہیں بڑھ کر اللہ نے ان پر ایسا فضل کیا کہ مٹی میں ہاتھ ڈالتے تو وہ بھی سونا بن جاتی۔یوں کاروبار تیزی سے ترقی کرنے لگا۔ ان کے حالات بہتر ہوگئے تو وہ بہتر جگہ پر شفٹ ہوگئے۔گھر میں ایک دفعہ پھر ملازمین کی چہل پہل شروع ہوگئی۔
ان تمام چیزوں سے کہیں بڑھ کر اسریٰ نے وقار کے دل و دماغ کے ہر صفحے سے سونیا کا نقش مٹادیا تھا۔وہ تھی ہی ایسی۔ چھاجانے والی۔ اپنے آپ کو منوالینے والی۔ اپنی جگہ خود بنالینے والی۔ اس نے وقار کے گھر، زندگی اور اس کے دل میں اپنی جگہ خود بنالی تھی۔
یہ شادی کی پہلی سالگرہ کا دن تھا۔ اس موقع پر اسریٰ نے یہ اصرار کیا تھا کہ وہ دونوں کہیں باہر چل کر کھانا کھاتے ہیں۔ چنانچہ آج وقار اسے ایک پرفضا مقام پر ڈنر کے لیے لایا تھا۔ وہاں پہنچ کر کھانے کا آرڈردینے کے بعد وقار ہاتھ دھونے واش روم چلا گیا۔ واپس آیاتواس نے غورسے اسریٰ کو دیکھا۔وہ خاموش بیٹھی ہوئی دور خلاؤں میں کہیں دیکھ رہی تھی۔ اس وقت اسریٰ اسے بہت اچھی لگی۔اس کے چہرے پر عجیب سی روشنی تھی۔وقار اسے دیکھتا رہا ۔ پھر ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس کے قریب جاکر انگریزی میں پوچھا۔
معاف کیجیے گا مس۔ کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟
اسریٰ نے ایک لمحے کے لیے اسے دیکھا اور پھر سنجیدگی سے منہ دوسری طرف پھیرتے ہوئے انگریزی ہی میں جواب دیا۔
مجھے اجنبیوں کا اس طرح بے تکلف ہونا پسند نہیں۔
مگر میرا خیال ہے کہ ہم پہلے بھی مل چکے ہیں۔
ہوسکتا ہے۔مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں آپ کو اپنے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دوں۔
اسریٰ کے لہجے میں اب بھی سنجیدگی تھی۔
وقارنے اس کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
دراصل مجھے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے۔
تو کیجیے؟اسریٰ نے قدرے بے رخی سے کہا۔
کیا آپ مجھ سے شادی کرنا چاہیں گی؟
اس کی بات پر اسریٰ زیر لب مسکراکر ناز کے ساتھ بولی۔
سوری! میں پہلے ہی سے شادی شدہ ہوں۔
اس بات پر دونوں نے ایک قہقہہ لگایا اور دیر تک ہنستے رہے۔
وقار نے شادی کے بعد اپنی شخصیت کو اسریٰ کے حساب سے بہت کچھ بدلا تھا۔اس نے کبھی اسریٰ کو یہ احساس نہیں ہونے دیا تھا کہ ان کی عمر میں زیادہ فرق ہے۔اپنی گہری سنجیدگی کو اس نے اسریٰ کی خاطراس لطافت میں بدلا تھا جس کا اظہار ابھی ہوا تھا۔
ان کی ہنسی تھمی تو وقار نے اسریٰ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
آج تم میں بہت روشنی لگ رہی ہے۔
ہاں مجھے بھی لگ رہی ہے۔ مگر اس کی وجہ میں بعد میں بتاؤں گی۔ یہ بتائیں میں نے آپ کو شادی کے بعد تنگ تو نہیں کیا۔
نہیں اسریٰ ۔ تم نے تو میری زندگی کو خوشیوں کے وہ رنگ دیے ہیں جن سے میں عرصے سے محروم ہوگیا تھا۔لیکن یہ بتاؤ تمھیں تو پچھتاوا نہیں ہوا کہ تم نے مجھ سے شادی کرلی۔
وقار!مجھے دس دفعہ بھی زندگی ملے گی تو میں ہر زندگی آپ کے ساتھ گزارنا چاہوں گی۔
اس کی بات پر وقار نے فوراً گرہ لگائی۔
دس دفعہ نہیں بس ایک دفعہ اور زندگی ملے گی۔ وہ میرے ساتھ گزارلینا۔
اسریٰ ہنسنے لگی اور ہنستے ہنستے بولی۔
آپ بہت اچھے انسان ہیں۔ محبت کرنے والے، خیال کرنے والے، قربانی دینے والے، احساس کرنے والے۔ ایسے لوگ کم ہوتے ہیں۔
اسریٰ کے لہجے میں محبت کوٹ کوٹ کربھری تھی۔ وقار نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
اب میں سوچتا ہوں کہ میں نے سونیا کے بعد اتنے برس تک شادی نہیں کی تو یہ بھی اللہ کی مصلحت تھی۔ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے تھے کہ تم میری زندگی میں آؤ۔ورنہ امی کا تو بس نہیں چلتا تھا کہ میری دوسری شادی کرادیں، مگر میں مان کر نہیں دیا۔ مگر پتہ نہیں تمھاری دفعہ کیا ہواتھا۔ انھوں نے ایک دفعہ کہا اور میں جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ ورنہ تو دس برس پہلے ہی میری شادی ہوچکی ہوتی۔ شاید تنہائی کے دس سال اس لیے آئے کہ ان کے بعد تمھیں میرے پاس آنا تھا۔
لیکن ان دس برسوں میں آپ نے خدا کو پالیا۔
ہاں یہ دس برس ضائع نہیں ہوئے۔ بلکہ یہ میری زندگی کے سب سے قیمتی برس بن گئے۔ ان میں ،میں نے خدا کو پالیا۔ خدا کی کتاب کو پالیا ۔ اس کے رسول کو پالیا۔اس کی جنت اور جہنم کو پالیا۔ یہی وہ حتمی سچائیاں ہیں جن کو پانے کے لیے انسان کو اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔
اور میں نے صرف آپ کو پایا اور آ پ کے ذریعے سے یہ سب کچھ پالیا۔ میرا کام تو بڑا آسان ہوگیا۔
اسریٰ یہ کہہ کر ہنسنے لگی۔
ہاں مگر مجھے اس بات کا بہت دکھ ہے کہ ہمارے معاشرے نے اسلام کے نام پر جن چیزوں کو پایا ہے وہ اسلام کا اصل تعارف نہیں ہیں۔ ہم نے اسلام کے نام پر اللہ کے بجائے غیر اللہ کو پایا ہے۔ اسلام کے نام پر قرآن مجیداور پیغمبر علیہ السلام کی اصل تعلیم کے بجائے اپنے تعصبات اور خواہشات کو پایا ہے۔ ہم نے اسلام کے نام پر آخرت کے بجائے دنیا میں جنت کی تعمیر کو مقصد بنالیا ہے۔ہم نے اسلام کے نام پر اپنے نفس کے تزکیہ کے بجائے دوسروں پر مذہب ٹھونسنے کو دین کا نصب العین بنالیا ہے۔ اسلام کی اصل دعوت کو دنیا تک پہنچانے کے بجائے دوسروں سے نفرت کرنا اپنا شیوہ بنالیا ہے۔ اس میں سے کچھ بھی اسلام نہیں۔
مگر ہم کیا کریں وقار؟ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔
ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔ جن کی ذمہ داری تھی کہ صورتحال کی اصلاح کریں وہ برتن کو اندر کے بجائے باہر سے دھوتے ہیں۔ وہ کمر کو توڑ دینے والے بوجھوں کوخود انگلی نہیں لگاتے اور دوسروں کی پیٹھ پر لاد دیتے ہیں۔ وہ مچھروں کو چھانتے ہیں اور اونٹوں کو نگل جاتے ہیں۔وہ لوگوں کو اپنا پیروکار بنانے کے لیے خشکی اور تری کا دورہ کرتے ہیں اور جب بنالیتے ہیں تو اپنے سے دوگنا جہنم کا ایندھن بنادیتے ہیں۔وہ چند ظاہری باتوں کو دین بنا کر پیش کرتے ہیں اور دین کی اصل تعلیم جو قرآن میں محفوظ ہے اس کو ذرہ برابراہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ جو اسلاف کے نام کی مالا جپتے ہیں ،مگر آج کے ان لوگوں کوجھٹلاتے ہیں جو اسلاف کے علم کے اصل وارث ہیں۔
آپ کچھ نہیں کرسکتے؟ اسریٰ نے سوال کیا۔
میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے بمشکل تمام خود سچائی کو دریافت کیا ہے۔مگر یہ سچائی بہت بڑی ہے۔ میں نے قرآن کی شکل میں خدا کو بولتے ہوئے سنا ہے۔ میں نے قرآن کی شکل میں پیغمبر اسلام کی سیرت کو زندہ دیکھ لیا ہے۔ میں نے اس کتاب مبین میں صحابہ کرام کی اس زندگی کو پالیا ہے جسے آسمانی صحیفوں میں خدا کی بادشاہی کو زمین پر قائم ہونے سے تعبیر کیا گیا تھا۔ مگر اس سچائی کو دوسروں تک پہنچانا توایک بہت بڑی جنگ ہے۔ یہ جنگ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ کاش خدا مجھے اولاد دے تو میں اسے اس کام کے لیے وقف کردوں۔
اس کی بات پر اسریٰ دھیرے سے مسکرائی۔
وقار آ پ نے کچھ دیر پہلے کہا تھا نا کہ مجھ میں آپ کو بہت روشنی نظر آرہی ہے۔ یہ روشنی میری نہیں آپ کی دی ہوئی ہے۔میں آج آپ کو یہاں اسی لیے لائی تھی۔ یہ بتانے کے لیے کہ آپ باپ بننے والے ہیں۔
اسریٰ کی بات پر وقار ششدر رہ گیا۔اس کی پوری جوانی یہ جملہ سننے کے لیے ترس گئی تھی۔ اس نے سونیا کی خوشی کے لیے کبھی اس کے سامنے اپنی اس خواہش کا اظہارنہیں کیا تھا۔ اسریٰ کے سامنے بھی کبھی اس کی زبان سے ایسا کوئی جملہ نہیں نکلا تھا۔ آج پہلی دفعہ اس کی زبان سے بات کرتے کرتے بے خیالی میں یہ بات نکل گئی تھی اور اگلے ہی لمحے اللہ تعالیٰ نے گویا اسے یہ خوش خبری سنادی کہ اس کی برسوں کی تمنا پوری کردی گئی۔
اسریٰ ! میری زندگی کے اس سب سے خوبصورت جملے کے لیے تمھارا شکریہ۔ تم میری زندگی میں آنے والی سب سے بڑی نعمت ہو۔
اس کی بات پر اسریٰ کھل اٹھی۔
لیکن یہ بتائیں کہ اگر بیٹی ہوگئی تو آپ کو مایوسی تو نہیں ہوگی۔
بھئی مایوسی کی کیا بات ہے۔ بیٹی تو خدا کی رحمت ہوتی ہے۔ میری ماں اور تم بھی تو کسی کی بیٹیاں ہی تو ہو نا۔تمھی لوگوں کے دم سے میری کائنات روشن ہے۔
تو بیٹی کا نام کیا رکھیں گے۔
جو تم چاہو۔ لیکن بیٹا ہوا تو پھر اس کا نام میں نے سوچ لیا ہے۔
کیا نام سوچا ہے آ پ نے۔
اس کا نام عبداللہ ہوگا۔
اوہ۔ کتنا پیارا نام ہے۔تو بس طے ہوگیا۔اگر ہمارے ہاں بیٹا ہوا تو اس کا نام عبداللہ ہوگا۔
انشاء اللہ۔وقار نے کہا ہی تھا کہ ویٹر ان کا کھانا لے کر ان کی میز کے پاس آگیا ۔ وہ دونوں خاموش ہوگئے۔
قسط نمبر28
کچھ ہی دیر میں وقار اپنی والدہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔اسریٰ باہر ہی رک گئی تھی۔ وقار کی چھٹی حس بتارہی تھی کہ معاملہ کچھ گڑبڑ ہے۔
اس نے آتے ہی پوچھا۔
امی آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ اسریٰ نے بتایاتھاکہ آپ مجھے فوراً بلارہی ہیں۔
ہاں بیٹا۔ اب تو میں زندگی سے زیادہ موت سے قریب ہوں۔ چاہتی ہوں کہ تم سے کچھ باتیں کرلوں۔
امی آپ کیسی باتیں کررہی ہیں۔ اب تو الحمدللہ آپ کی طبیعت بالکل ٹھیک ہوگئی ہے۔
ہاں بیٹا، مگر زندگی میں خوشی تو ابھی بھی نہیں ہے نا۔ جب تک سونیا زندہ تھی، میں پوتا پوتی کی نعمت سے محروم رہی۔ مگر تم سے ایک لفظ نہ کہا کہ جانتی تھی کہ تم اس کے معاملے میں کتنے حساس ہو۔ پھر اس کی موت کے بعدتم نے دنیا چھوڑی۔ میں نے وہ غم بھی سہا۔ تم سے دوسری شادی کا کہا۔ مگر تم نے میری ایک نہیں مانی۔ اب سوچتی ہوں کہ مروں گی تو خدا کے حضور یہی گواہی دوں گی کہ میرے بیٹے نے مجھے زندگی میں کوئی خوشی نہیں دی۔
وقار اپنی والدہ کی اس بات پر سٹپٹاکر رہ گیا۔
مگر امی میں نے آپ کی خدمت میں کوئی کمی نہیں کی۔
بیٹا خدمت تو سب کچھ نہیں ہوتی نا۔ ایسی خدمت تو میری اسریٰ نے بھی کچھ ہی عرصے میں کرلی ہے۔ مگر اس نے ایک بیٹی بن کر جو خوشی مجھے دی ہے وہ تم کبھی نہیں دے سکے، نہ دے سکو گے۔ سوچتی ہوں کہ اسریٰ کی شادی تم سے کردیتی تو مرنے سے پہلے میرے سارے غموں کا ازالہ ہوجاتا۔ مگر میں تمھیں جانتی ہوں۔ایک مری ہوئی عورت کی خاطر اپنی ماں کی بات تم نے نہ پہلے مانی ہے نہ اب مانوگے تو اب خدا کے حضور پیش ہوکر تو میں یہی کہوں گی کہ میرا بیٹا میرا نافرمان تھا۔
اب وقار پوری بات سمجھ گیا۔
تو اسریٰ نے آپ سے بات کی ہے؟
کیا غلط بات کی ہے اس نے؟ یہ میرے دل کی آواز تھی۔ میری برسوں کی دعا تھی۔ خدا نے میری دعا اس طرح سنی کہ آسمان سے ایک نیک پری کو ہمارے گھر میں بھیج دیا۔مگر تم ناشکرے پن سے باز نہیں آتے۔ تم تو عورتوں کو دیکھنے کے لیے بالکل اندھے ہو۔ ورنہ تم دیکھتے کہ اسریٰ کی شکل میں اللہ نے تمھارے صبر کا بدلا تمھارے گھر بھیجا ہے۔
امی ! میں سونیا کو ایک کونے میں رکھ دوں تب بھی یہ جانتاہوں کہ اسریٰ صرف میرے احسانوں کا بدلہ اتارنے کی کوشش کررہی ہے۔
تمھارے احسانوں کا بدلہ وہ اتارچکی ہے۔ بیٹا وقار! ایک بات یاد رکھنا۔ آج کے دور میں بڑے لوگ وہ نہیں ہوتے جو احسان کرتے ہیں۔ بڑے لوگ وہ ہوتے ہیں جو احسان کا بدلہ اتارتے ہیں۔کیونکہ وقت گزرنے کے بعد کسی کو یاد نہیں رہتا کہ اس پر کیا احسان کیا گیا ہے۔ اسریٰ یہ کررہی ہے تو اس کا بڑا پن ہے۔
یہی تو میں کہہ رہا ہوں۔ یہ اگر اس کا بڑا پن ہے توکیا اسے یہ سزا دی جائے کہ اس کی عمر سے پندرہ برس بڑے آدمی کے پلے اسے باندھ دیا جائے۔
بیٹا! اتنی بات ہوتی تو میں خود اسے منع کردیتی ۔ مگر تم نے اسے نظر بھر کر نہیں دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں غور سے نہیں دیکھا۔ اس لیے کہ تم عورتوں کو غور سے دیکھتے ہی نہیں۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا ہے ۔ وہ تمھیں واقعی پسند کرتی ہے۔یہ معاملہ صرف احسان اتارنے کا نہیں ہے۔
پھر وہ اسے مزید سمجھاتے ہوئے بولیں۔
دیکھو!تم نے بہت صبر کرلیا ہے۔ اب شکر کا وقت ہے۔
مگر امی آپ جانتی ہیں کہ میں سونیا کے بعد کسی سے شادی نہیں کرسکتا۔
میرے بیٹے! جاؤ اور باہر جاکر اُس لڑکی کو غور سے دیکھو۔ وہ سونیا ہی کا دوسرا روپ ہے۔ خدا نے تمھاری مری ہوئی بیوی کو دوبارہ زندہ کرکے تمھارے پاس بھیجا ہے۔ اس کا ظاہرسونیا کا ہے ، مگر اس کا باطن سونیا سے کہیں بہتر ہے تاکہ جنت میں بھی وہ تمھارے ساتھ رہ سکے۔ خدانے تمھارے لیے معجزہ کیاہے۔ یہ معجزے وہ ہر کسی کے لیے نہیں کرتا۔
وقارسرجھکائے بیٹھارہا۔ اسے خاموش دیکھ کر بیگم شمیم دوبارہ بولیں۔
جاؤ اور باہر جاکر خدا کے اس احسان کی قدر کرو۔ اسریٰ اللہ کی وہ نعمت ہے جسے تمھارے پاس اللہ نے خود بھیجا ہے۔ اسے ٹھکراؤگے تو کفران نعمت کے مرتکب ہوگے۔ماں کا دل دکھانے کے الگ سے گناہ گار ہوگے۔ مجھے آخری عمر میں اگر یہ سکھ نہیں دے سکتے تو مجھے لاوارثوں کے کسی مرکز میں چھوڑ کر آجاؤ۔ ایسی اولاد کا کیا فائدہ جو ماں کو خوشی نہ دے سکے۔
وقار کے پاس فرار کے سارے راستے بند ہوچکے تھے۔اس نے سر جھکاکر کہا۔
ٹھیک ہے امی۔ جیسے آپ کی مرضی۔
ایسے نہیں۔ وہ باہر بیٹھی ہے۔ اسے جاکر خود بتاؤ کہ تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو۔ یہ میرا حکم ہے۔
امی پلیز۔۔۔۔۔۔یہ میرا مزاج نہیں ہے۔
میں کچھ نہیں سننا چاہتی۔ جاؤ اور جو میں کہہ رہی ہوں وہ کرو۔
وقار بادل نخواستہ اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار ہارے ہوئے جواری کی طرح اپنی والدہ کے کمرے سے نکلا تو باہر اسریٰ بیٹھی ہوئی تھی۔ وقار کو دیکھ کر اس نے سر جھکالیا۔وقار نے اسے پہلی دفعہ غور سے دیکھا اور بس دیکھتا رہ گیا۔وہ ایک لمحے پہلے تک اپنی والدہ کے حکم کی تعمیل کررہا تھا۔ مگر اب اسے محسوس ہوا کہ جو کچھ وہ اسریٰ سے کہنے جارہا ہے وہ اس کے دل کی آواز ہے۔
اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ آہستہ سے اس کے قریب آکر بولا۔
اسریٰ میں تم سے شادی کروں گا۔
اس کی بات پر اسریٰ نے اسے سر اٹھاکر دیکھا اوردبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔
میں تھوڑی سی بدتمیز ہوں۔ آپ کو برداشت کرنا ہوگا۔
یہ کون کہتا ہے ؟
سب کہتے ہیں۔
بالکل غلط کہتے ہیں۔
تو سچ کیا ہے میں آپ کے منہ سے سننا چاہتی ہوں۔
اسریٰ خو ش ہوگئی تھی۔وہ سمجھی کہ وقار اب اس کی تعریف کرے گا۔
تم تھوڑی نہیں بلکہ بہت زیادہ بدتمیز ہو۔
یہ کہہ کر وقار ہنستا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔اسریٰ نے وقار کو پہلی دفعہ ہنستے ہوئے دیکھا تھا۔ اسے وہ ہنستا ہوا بہت اچھا لگا۔اس نے ہنستے ہوئے پیچھے سے آوازلگائی۔
جیسی بھی ہوں۔ اب تو آپ کو برداشت کرنا ہی پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقار اور اسریٰ کی شادی کوایک سال گزرگیا پتہ ہی نہ چلا۔اس عرصے میں وقار کو ایک بالکل مختلف اسریٰ سے واسطہ پڑا۔ اس کی سخت مزاجی نرمی میں بدل چکی تھی۔وقار کی طرح اسریٰ کی زندگی بھی عبادت،خدمت،انفاق اور اخلاق سے آراستہ ہوچکی تھی۔سونیا کے برعکس وہ وقار اور اس کی والدہ دونوں کی بہت خدمت کرتی تھی۔
اس سب کے ساتھ اس نے وقار کے حالات کو بھی بدل دیا تھا۔اسریٰ پیسے ضائع کرنے کی عادی نہیں تھی۔ برسہا برس میں اس نے اعلیٰ عہدوں پر کام کرتے ہوئے جو کچھ کمایا تھا ،اسے مختلف طریقوں سے انویسٹ کررکھا تھا۔اسی بنا پر اس نے اطمینان سے وقار کی والدہ کا علاج کرالیا تھا۔ پھر بھی اس کے پاس کافی پیسے بچے تھے۔
اس نے وقار کو آمادہ کرلیاکہ دوبارہ بزنس شروع کرے۔پھر اس نے اپنا اور وقار کا سارا سرمایہ اکٹھا کرکے ایک بزنس شروع کردیا تھا۔سرمایہ اس سطح سے بہت کم تھاجہاں وقار نے کام چھوڑا تھا، مگر اول تو یہ دونوں بزنس کی بہت اچھی سمجھ رکھتے تھے، اس سے کہیں بڑھ کر اللہ نے ان پر ایسا فضل کیا کہ مٹی میں ہاتھ ڈالتے تو وہ بھی سونا بن جاتی۔یوں کاروبار تیزی سے ترقی کرنے لگا۔ ان کے حالات بہتر ہوگئے تو وہ بہتر جگہ پر شفٹ ہوگئے۔گھر میں ایک دفعہ پھر ملازمین کی چہل پہل شروع ہوگئی۔
ان تمام چیزوں سے کہیں بڑھ کر اسریٰ نے وقار کے دل و دماغ کے ہر صفحے سے سونیا کا نقش مٹادیا تھا۔وہ تھی ہی ایسی۔ چھاجانے والی۔ اپنے آپ کو منوالینے والی۔ اپنی جگہ خود بنالینے والی۔ اس نے وقار کے گھر، زندگی اور اس کے دل میں اپنی جگہ خود بنالی تھی۔
یہ شادی کی پہلی سالگرہ کا دن تھا۔ اس موقع پر اسریٰ نے یہ اصرار کیا تھا کہ وہ دونوں کہیں باہر چل کر کھانا کھاتے ہیں۔ چنانچہ آج وقار اسے ایک پرفضا مقام پر ڈنر کے لیے لایا تھا۔ وہاں پہنچ کر کھانے کا آرڈردینے کے بعد وقار ہاتھ دھونے واش روم چلا گیا۔ واپس آیاتواس نے غورسے اسریٰ کو دیکھا۔وہ خاموش بیٹھی ہوئی دور خلاؤں میں کہیں دیکھ رہی تھی۔ اس وقت اسریٰ اسے بہت اچھی لگی۔اس کے چہرے پر عجیب سی روشنی تھی۔وقار اسے دیکھتا رہا ۔ پھر ایک مسکراہٹ کے ساتھ اس کے قریب جاکر انگریزی میں پوچھا۔
معاف کیجیے گا مس۔ کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟
اسریٰ نے ایک لمحے کے لیے اسے دیکھا اور پھر سنجیدگی سے منہ دوسری طرف پھیرتے ہوئے انگریزی ہی میں جواب دیا۔
مجھے اجنبیوں کا اس طرح بے تکلف ہونا پسند نہیں۔
مگر میرا خیال ہے کہ ہم پہلے بھی مل چکے ہیں۔
ہوسکتا ہے۔مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں آپ کو اپنے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دوں۔
اسریٰ کے لہجے میں اب بھی سنجیدگی تھی۔
وقارنے اس کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
دراصل مجھے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے۔
تو کیجیے؟اسریٰ نے قدرے بے رخی سے کہا۔
کیا آپ مجھ سے شادی کرنا چاہیں گی؟
اس کی بات پر اسریٰ زیر لب مسکراکر ناز کے ساتھ بولی۔
سوری! میں پہلے ہی سے شادی شدہ ہوں۔
اس بات پر دونوں نے ایک قہقہہ لگایا اور دیر تک ہنستے رہے۔
وقار نے شادی کے بعد اپنی شخصیت کو اسریٰ کے حساب سے بہت کچھ بدلا تھا۔اس نے کبھی اسریٰ کو یہ احساس نہیں ہونے دیا تھا کہ ان کی عمر میں زیادہ فرق ہے۔اپنی گہری سنجیدگی کو اس نے اسریٰ کی خاطراس لطافت میں بدلا تھا جس کا اظہار ابھی ہوا تھا۔
ان کی ہنسی تھمی تو وقار نے اسریٰ کو دیکھتے ہوئے کہا۔
آج تم میں بہت روشنی لگ رہی ہے۔
ہاں مجھے بھی لگ رہی ہے۔ مگر اس کی وجہ میں بعد میں بتاؤں گی۔ یہ بتائیں میں نے آپ کو شادی کے بعد تنگ تو نہیں کیا۔
نہیں اسریٰ ۔ تم نے تو میری زندگی کو خوشیوں کے وہ رنگ دیے ہیں جن سے میں عرصے سے محروم ہوگیا تھا۔لیکن یہ بتاؤ تمھیں تو پچھتاوا نہیں ہوا کہ تم نے مجھ سے شادی کرلی۔
وقار!مجھے دس دفعہ بھی زندگی ملے گی تو میں ہر زندگی آپ کے ساتھ گزارنا چاہوں گی۔
اس کی بات پر وقار نے فوراً گرہ لگائی۔
دس دفعہ نہیں بس ایک دفعہ اور زندگی ملے گی۔ وہ میرے ساتھ گزارلینا۔
اسریٰ ہنسنے لگی اور ہنستے ہنستے بولی۔
آپ بہت اچھے انسان ہیں۔ محبت کرنے والے، خیال کرنے والے، قربانی دینے والے، احساس کرنے والے۔ ایسے لوگ کم ہوتے ہیں۔
اسریٰ کے لہجے میں محبت کوٹ کوٹ کربھری تھی۔ وقار نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
اب میں سوچتا ہوں کہ میں نے سونیا کے بعد اتنے برس تک شادی نہیں کی تو یہ بھی اللہ کی مصلحت تھی۔ اللہ تعالیٰ یہ چاہتے تھے کہ تم میری زندگی میں آؤ۔ورنہ امی کا تو بس نہیں چلتا تھا کہ میری دوسری شادی کرادیں، مگر میں مان کر نہیں دیا۔ مگر پتہ نہیں تمھاری دفعہ کیا ہواتھا۔ انھوں نے ایک دفعہ کہا اور میں جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ ورنہ تو دس برس پہلے ہی میری شادی ہوچکی ہوتی۔ شاید تنہائی کے دس سال اس لیے آئے کہ ان کے بعد تمھیں میرے پاس آنا تھا۔
لیکن ان دس برسوں میں آپ نے خدا کو پالیا۔
ہاں یہ دس برس ضائع نہیں ہوئے۔ بلکہ یہ میری زندگی کے سب سے قیمتی برس بن گئے۔ ان میں ،میں نے خدا کو پالیا۔ خدا کی کتاب کو پالیا ۔ اس کے رسول کو پالیا۔اس کی جنت اور جہنم کو پالیا۔ یہی وہ حتمی سچائیاں ہیں جن کو پانے کے لیے انسان کو اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔
اور میں نے صرف آپ کو پایا اور آ پ کے ذریعے سے یہ سب کچھ پالیا۔ میرا کام تو بڑا آسان ہوگیا۔
اسریٰ یہ کہہ کر ہنسنے لگی۔
ہاں مگر مجھے اس بات کا بہت دکھ ہے کہ ہمارے معاشرے نے اسلام کے نام پر جن چیزوں کو پایا ہے وہ اسلام کا اصل تعارف نہیں ہیں۔ ہم نے اسلام کے نام پر اللہ کے بجائے غیر اللہ کو پایا ہے۔ اسلام کے نام پر قرآن مجیداور پیغمبر علیہ السلام کی اصل تعلیم کے بجائے اپنے تعصبات اور خواہشات کو پایا ہے۔ ہم نے اسلام کے نام پر آخرت کے بجائے دنیا میں جنت کی تعمیر کو مقصد بنالیا ہے۔ہم نے اسلام کے نام پر اپنے نفس کے تزکیہ کے بجائے دوسروں پر مذہب ٹھونسنے کو دین کا نصب العین بنالیا ہے۔ اسلام کی اصل دعوت کو دنیا تک پہنچانے کے بجائے دوسروں سے نفرت کرنا اپنا شیوہ بنالیا ہے۔ اس میں سے کچھ بھی اسلام نہیں۔
مگر ہم کیا کریں وقار؟ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔
ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔ جن کی ذمہ داری تھی کہ صورتحال کی اصلاح کریں وہ برتن کو اندر کے بجائے باہر سے دھوتے ہیں۔ وہ کمر کو توڑ دینے والے بوجھوں کوخود انگلی نہیں لگاتے اور دوسروں کی پیٹھ پر لاد دیتے ہیں۔ وہ مچھروں کو چھانتے ہیں اور اونٹوں کو نگل جاتے ہیں۔وہ لوگوں کو اپنا پیروکار بنانے کے لیے خشکی اور تری کا دورہ کرتے ہیں اور جب بنالیتے ہیں تو اپنے سے دوگنا جہنم کا ایندھن بنادیتے ہیں۔وہ چند ظاہری باتوں کو دین بنا کر پیش کرتے ہیں اور دین کی اصل تعلیم جو قرآن میں محفوظ ہے اس کو ذرہ برابراہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ جو اسلاف کے نام کی مالا جپتے ہیں ،مگر آج کے ان لوگوں کوجھٹلاتے ہیں جو اسلاف کے علم کے اصل وارث ہیں۔
آپ کچھ نہیں کرسکتے؟ اسریٰ نے سوال کیا۔
میں کچھ نہیں کرسکتا۔ میں نے بمشکل تمام خود سچائی کو دریافت کیا ہے۔مگر یہ سچائی بہت بڑی ہے۔ میں نے قرآن کی شکل میں خدا کو بولتے ہوئے سنا ہے۔ میں نے قرآن کی شکل میں پیغمبر اسلام کی سیرت کو زندہ دیکھ لیا ہے۔ میں نے اس کتاب مبین میں صحابہ کرام کی اس زندگی کو پالیا ہے جسے آسمانی صحیفوں میں خدا کی بادشاہی کو زمین پر قائم ہونے سے تعبیر کیا گیا تھا۔ مگر اس سچائی کو دوسروں تک پہنچانا توایک بہت بڑی جنگ ہے۔ یہ جنگ میرے بس کی بات نہیں ہے۔ کاش خدا مجھے اولاد دے تو میں اسے اس کام کے لیے وقف کردوں۔
اس کی بات پر اسریٰ دھیرے سے مسکرائی۔
وقار آ پ نے کچھ دیر پہلے کہا تھا نا کہ مجھ میں آپ کو بہت روشنی نظر آرہی ہے۔ یہ روشنی میری نہیں آپ کی دی ہوئی ہے۔میں آج آپ کو یہاں اسی لیے لائی تھی۔ یہ بتانے کے لیے کہ آپ باپ بننے والے ہیں۔
اسریٰ کی بات پر وقار ششدر رہ گیا۔اس کی پوری جوانی یہ جملہ سننے کے لیے ترس گئی تھی۔ اس نے سونیا کی خوشی کے لیے کبھی اس کے سامنے اپنی اس خواہش کا اظہارنہیں کیا تھا۔ اسریٰ کے سامنے بھی کبھی اس کی زبان سے ایسا کوئی جملہ نہیں نکلا تھا۔ آج پہلی دفعہ اس کی زبان سے بات کرتے کرتے بے خیالی میں یہ بات نکل گئی تھی اور اگلے ہی لمحے اللہ تعالیٰ نے گویا اسے یہ خوش خبری سنادی کہ اس کی برسوں کی تمنا پوری کردی گئی۔
اسریٰ ! میری زندگی کے اس سب سے خوبصورت جملے کے لیے تمھارا شکریہ۔ تم میری زندگی میں آنے والی سب سے بڑی نعمت ہو۔
اس کی بات پر اسریٰ کھل اٹھی۔
لیکن یہ بتائیں کہ اگر بیٹی ہوگئی تو آپ کو مایوسی تو نہیں ہوگی۔
بھئی مایوسی کی کیا بات ہے۔ بیٹی تو خدا کی رحمت ہوتی ہے۔ میری ماں اور تم بھی تو کسی کی بیٹیاں ہی تو ہو نا۔تمھی لوگوں کے دم سے میری کائنات روشن ہے۔
تو بیٹی کا نام کیا رکھیں گے۔
جو تم چاہو۔ لیکن بیٹا ہوا تو پھر اس کا نام میں نے سوچ لیا ہے۔
کیا نام سوچا ہے آ پ نے۔
اس کا نام عبداللہ ہوگا۔
اوہ۔ کتنا پیارا نام ہے۔تو بس طے ہوگیا۔اگر ہمارے ہاں بیٹا ہوا تو اس کا نام عبداللہ ہوگا۔
انشاء اللہ۔وقار نے کہا ہی تھا کہ ویٹر ان کا کھانا لے کر ان کی میز کے پاس آگیا ۔ وہ دونوں خاموش ہوگئے۔
ابو یحییٰ
3 Comments
Interesting....
ReplyDeleteThanks for your feedback!
DeleteThis novel has 2-3 episodes left. Will upload them soon inshaaALLAH
https://vmorecloud.com/proxmox-8/
ReplyDelete