معصوم تھا، نہ وقفِ سجود و دُعا تھا میں
خوبی مری یہی تھی کہ اہلِ خطا تھا میں
اب تک میں اپنی ذات کے پنجرے میں بند ہوں
پل بھر کو اپنے آپ کے پیچھے چلا تھا میں
ابلیس ہے مرے لیے اک امتحاں تو کیا؟
ابلیس کے لیے بھی تو اک ابتلا ہوں میں
چل چل کے پھٹ چکے ہیں قدم، پھر بھی رہبرو!
اب بھی وہیں کھڑا ہوں جہاں سے چلا تھا میں
سچ سچ کہوں کہ ہجر کی تاریک رات میں
ایسا بھی کوئی پل تھا کہ تُم سے جدا تھا میں؟
اس لغزشِ حسیں پہ فدا لاکھ منزلیں
اپنا وجود کھو کے تمہیں پا گیا تھا میں
Read more of Mufti Taqi Usmani's Poetry by clicking here
مفتی تقی عثمانی
2 Comments
اعلیٰ
ReplyDeleteشکریہ۔
Delete