Haasil-e-Safar - Professor Zaki Azar - Zaki Ahmad Siddique - Poetry

پروفیسر ذکی آذر۔ اصل نام ذکی احمد صدیقی۔ پیدائش ١٩٤٠ء بہار میں۔ ١٩٤٨ء میں خاندان سمیت ڈھاکہ ہجرت کر گئے۔ تعلیم کے سارے مدارج ادھر ہی طے کیے۔ تعلیم کے بعد تعلم سے وابستہ رہے۔ شعر و ادب کا شوق بچپن سے تھا، ٧١ء کے ہنگام میں خاندان کے افراد سمیت اپنا ادبی سرمایہ بھی گنوا بیٹھے۔ اس سانحے نے ان کے مزاج پر بھی گہرا اثر ڈالا تھا اور وہ بجھ سے گئے تھے۔ یہاں وہ فیڈرل گورنمنٹ کالج برائے طلبہ اسلام آباد میں اردو لیکچرار کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے رہے۔ بالآخر یکم اکتوبر ١٩٩٠ء کو پچاس سال کی عمر میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ نظیر احمد صدیقی کے بھائی تھے۔ آپ کی شاعری پر مشتمل "حاصل سفر" نامی کتاب آپکی وفات کے بعد شائع کی گئی۔




ان کی کتاب سے کچھ انتخاب پیش ہے 

 

درد جھیلنے والے، جاں پہ کھیلنے والے

بے بسی کے یہ پیکر کُھل کے کیوں نہیں روتے

 

خواب تم نے دیکھے تھے، درد ہم نے جھیلے ہیں

خواب دیکھنے والے کاش تم یہاں ہوتے

 

بے زبان لوگوں نے آخر ایک دن دیکھا

پانی سر سے جب گزرا کھا رہے تھے سب غوطے

*

 

گزری ہے وہ بھی شب کہ قیامت کا تھا سماں

نیچے دہکتی آگ تھی، اُوپر دہکتا چاند

 

کچھ روشنی کے ریزے تھے جیسے اندھیرے میں

وہ خون کی چمک تھی کہ کوئی چمکتا چاند

 

*

کوئی ہمدم ہے نہ اب مونسِ تنہائی ہے

دل نے خود اپنے کیے کی یہ سزا پائی ہے

حسن ہر رنگ میں  اک پیکر رعنائی ہے

سادگی میں بھی قیامت کی دل آرائی ہے

قیس و فرہاد پہ موقوف نہیں کچھ کہ یہاں

زندگی اور محبّت کسے راس آئی ہے

جادۂ شوق ہو یا مرحلۂ دار و رَسن

اپنی دیوانگی ہر موڑ پے کام آئی ہے

شہر سُنسان ہے، در بند ہے میخانے سب

کیسی ویرانی ہے کس کس پہ بلا آئی ہے

حاصلِ فکر و نظر کچھ بھی اگر ہے تو یہی

زہر کا جام ہے، دشنام ہے، رسوائی ہے

*

لطف و کرم کسی پر، جور و ستم کسی پر

اَے گردشِ زمانہ، طرفہ تری ادائیں

 

یہ سلسلہ سفر کا، یہ فاصلہ نظر کا

کس طرح ختم ہوگا، کچھ آپ ہی بتائیں

 

ہر شخص راہبر ہے، ہر شخص رہ نما ہے

کس کس کی بات مانیں، کس کس کو آزمائیں

 

یہ خوش گمانیاں تو تازندگی رہیں گی

شاید انہیں خبر ہو، شاید کبھی وہ آئیں

*

لوگ ملتے ہیں تو گھرپوچھتے ہیں

تھا کوئی اپنا بھی گھر یاد آیا

 

سنگ اٹھاتے بھی کسی پر کیسے

اپنا ہی دامنِ تر یاد آیا

*

ملُول و غم زدہ ہیں طالبانِ مدح و سپاس

قصیدہ خواں جو تھے وہ ہو گئے زمانہ شناس

 

مری نگاہ میں سفّاک بھی ہے، قاتل بھی

نظر میں اپنی وہ معصوم اور فرض شناس

 

پیالہ زہر کا ہو یا نوالہ سونے کا

کسی کو اس کی ہوس ہے، کسی کو اس کی پیاس

*

ماضی کے سارے چہرے تو نظروں میں ہیں، مگر

کیا کہتے ہیں یہ دیکھو آئینے حال کے

 

شاید کوئی خیال حقیقت سے جا ملے

آذر تراشتے رہو پیکر خیال کے

*

فکر و نظر کی منزلیں جن سے نہ طے ہوئیں کبھی

دَیر و حرم میں جا کے وہ ہو گئے صاحبِ مقام

 

سب کے لیے نہیں اگر عیش و نشاطِ زندگی

کیوں ہے یہ دعوتِ نگاہ، کیوں ہے پھر صلائے عام

 

ہم تو نہیں ہوئے مگر کون ہے جو یہاں ہوا

عیش و طرب کے باوجود عیش و طرب سے شاد کام

*

 

اسی اُمید پہ زندہ ہیں لوگ مر مر کر

کبھی توختم بلاؤں کا سلسلہ ہوگا

 

ستم شعار کہاں تک چُھپے گا آخر کار

ستم رسیدوں سے اک دن تو سامنا ہوگا

°

 

مری زندگی کا حاصل یہی تشنگی ہے میری

یہی آگ زندگی ہے، کہیں یہ بھی بجھ نہ جائے

 

مرا سر ہی سائباں تھا، مری آگ زندگی تھی

انہیں دھوپ کھا گئی ہے جو چلے تھے سائے سائے

°

جرأت مجھے ہوتی تو بچا لیتا میں بڑھ کر

اُڑتے ہوئے طائر کو شکاری کی نظر سے

 

مدت ہوئی لوٹا نہیں وہ طفلِ جواں سال

نکلا تھا کسی بات پر جو رُوٹھ کے گھر سے

°

انتخاب : س ۔ ق

Read more Urdu Poetry by clicking here

Post a Comment

0 Comments

Contact

Name

Email *

Message *