ضابطہ
...... حبیب جالب
یہ
ضابطہ ہے کہ باطل کو مت کہوں باطل
یہ
ضابطہ ہے کہ گرداب کو کہوں ساحل
یہ ضابطہ ہے بنوں دست و بازو ئے قاتل
یہ ضابطہ ہے دھڑکنا بھی چھوڑ دے یہ دل
یہ ضابطہ ہے کہ غم کو نہ غم کہا جائے
یہ ضابطہ ہے ستم کو کرم کہا جائے
بیاں
کروں نہ کبھی اپنی دل کی حالت کو
نہ
لاؤں لب پہ کبھی شکوہ و شکایت کو
کمالِ
حسن کہوں عیب کو جہالت کو
جگاؤں
نہ سوئی ہوئی عدالت کو
یہ
ضابطہ ہے حقیقت کو اک فسانہ کہوں
یہ
ضابطہ ہے قفس کو بھی آشیانہ کہوں
یہ
ضابطہ ہے کہوں دشت کو گلستاں زار
خزاں
کے روپ کو لکھوں فروغ حسن بہار
ہر
ایک دشمن جاں کو کہوں میں ہمدم و یار
جو
کاٹتی ہے سرِ حق، وہ چوم لوں تلوار
خطا
و جرم کہوں اپنی بے گناہی کو
سحر
کا نور لکھوں رات کی سیاہی کو
جو
مٹنے والے ہیں ان کے لیے دوام لکھوں
ثناء
یزید کی اور شمر پر سلام لکھوں
جو
ڈس رہا ہے وطن کو نہ اس کا نام لکھوں
سمجھ
سکیں نہ جسے لوگ وہ کلام لکھوں
دروغ
گو ئی کو سچائی کا پیام کہوں
جو
راہ زن ہے اسے رہبر عوام کہوں
میرے
جنوں کو نہ پہنا سکو گے تم زنجیر
نہ
ہو سکے گا کبھی تم سے میرا ذہن اسیر
جو
دیکھتا ہوں جو سچ ہے کروں گا وہ تحریر
متاع ہر دو جہاں بھی نہیں بہائے ضمیر
نہ
دے سکے گی سہارا تمہیں کو ئ تدبیر
فنا
تمہارا مقدر بقا میری تقدیر
نہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا
عصا اٹھاؤ کہ فرعون اسی سے جائے گا
اگر
ہے فکر گریباں تو گھر میں جا بیٹھو
یہ وہ عذاب ہے دیوانگی سے جائے گا
بجھے
چراغ، لٹیں عصمتیں، چمن اجڑ ا
یہ رنج جس نے دیئے کب خوشی سےجائے گا
جیو
ہماری طرح سے مرو ہماری طرح
نظام زر تو اسی سادگی سے جائے گا
جگا
نہ شہہ کے مصاحب کو نیند سے جالب
اگر وہ جاگ اٹھا نوکری سے جائے گا
0 Comments