عشرت سے مجھے کام نہ دنیائے طرب سے
دیکھا ہے نہاں خانۂ دل آنکھ نے جب سے
(طرب: خوشی، انبساط)
نزدیک وہ اتنے تھے کہ بس مل گئے دل میں
تھا گرمِ سفر جن کے لیے جانے میں کب سے
گر جنبشِ مژگاں کا کرشمہ ہے یہ دنیا
کیا دھوم مچے گی تیری ایک جنبشِ لب سے
(مژگاں: پلکیں)
اے ظلمتِ حالات سے جی چھوڑنے والو
پو پھٹتی ہے ہر روز اسی سینۂ شب سے
خوشیوں کے مقدّر میں ہے صدموں کی رفاقت
کانٹے یہ صدا دیتے ہیں پھولوں کے عقب سے
اللہ رے چہرے پہ یہ اعجازِ محبّت
رنگ اور نکھر آتا ہے کچھ رنج و تعب سے
(تعب: اضطراب، سختی، مشقت، دکھ)
دو گام چلے تھے کہ نظر آگئی منزل
مرکب کوئی بہتر نہ ملا ترکِ طلب سے
پل بھر میں وہ افسانۂ دل کہہ گئیں آنکھیں
برسوں میں بھی جس کو نہ سنا پاؤں میں لب سے
اے صبح کو تنویرِ شفق دیکھنے والو
پھوٹا ہے یہ رنگ اصل میں قربانیٔ شب سے
کیا کم ہے یہ اعزاز کہ اُس بزم میں آسی
ہے ذکر مرا "ظالم و ناداں" کے
لقب سے
(آسی: مفتی تقی عثمانی کا تخلص)
مفتی تقی عثمانی کے مجموعۂ کلام
"گوشۂ تنہائی" سے اقتباس
2 Comments
❤
ReplyDelete
ReplyDeleteپل بھر میں وہ افسانۂ دل کہہ گئیں آنکھیں
برسوں میں بھی جس کو نہ سنا پاؤں میں لب سے
❤